لاہور ہائیکورٹ نے سرگودھا میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو آئی ایس آئی کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے کیس سے متعلق تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے گزشتہ سماعت پر 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
ڈان نیوز کے مطابق حکم نامے میں جسٹس شاہد کریم نے اس بات پر زور دیا کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) وزیراعظم کے اختیار میں آتے ہیں اس لیے انہیں ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ وزیراعظم آفس آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت تمام سول اور ملٹری ایجنسیوں کو ہدایت کرے کہ وہ مستقبل میں اعلیٰ یا ماتحت عدلیہ کے کسی جج یا ان کے عملے سے رجوع کرنے سے گریز کریں۔
مزید برآں، حکم نامے میں انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کو ہدایت کی گئی کہ وہ ماتحت افسران کو عدالتی معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لیے ہدایات جاری کریں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کی عدالتوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی حفاظتی اقدامات ضروری ہیں تو متعلقہ جج سے رجوع کیا جائے۔
مزید برآں، انسداد دہشت گردی عدالت کے ججوں کو اپنے موبائل فون پر ریکارڈنگ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ حکم نامے میں ایڈووکیٹ حنا حفیظ اللہ کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ عدالتی عملہ سرگودھا میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کے کیس سے متعلق تفتیش میں مکمل تعاون کرے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ 8 جولائی تک عملدرآمد رپورٹ پیش کی جائے۔ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کیس جسٹس شاہد کریم کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے بعد ان کی عدالت میں منتقل کر دیا تھا۔ سرگودھا کے ڈی ایس پی، سرگودھا کے آر او سی ٹی ڈی اور سرگودھا کے متعلقہ ایس ایچ او کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے گئے۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے خطوط کا ازخود نوٹس لیا، جس میں آئی ایس آئی کے اہلکاروں سے ملنے سے انکار پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ جج نے انکار کے بعد خود کو اور اپنے خاندان کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی اطلاع دی، بشمول ان کی رہائش گاہ کے باہر جائیداد کو نقصان پہنچانا۔