کراچی خودکش حملے میں پانچ جاپانی شہری معجزانہ طور پر محفوظ رہے
پانچ غیر ملکی بال بال بچ گئے سیکیورٹی گارڈ شہید
کراچی کے علاقے لانڈھی میں ہائیس وین پر خودکش حملے میں پانچ جاپانی شہری معجزانہ طور پر محفوظ رہے تاہم ان کا نجی سیکیورٹی گارڈ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
لانڈھی کی مانسہرہ کالونی بس اسٹاپ کے قریب کیے گئے حملے میں خودکش حملہ آور مارا گیا اور اس کا ساتھی شرافی گوٹھ پولیس کے ساتھ ساتھ وین میں موجود سیکیورٹی گارڈز کی جوابی فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ ایک اور سیکورٹی گارڈ اور ایک ساتھی — فائر بریگیڈ کا ملازم — دوسرے دہشت گرد کی فائرنگ کی وجہ سے زخمی ہوا۔
خودکش حملہ آور کی شناخت سہیل خان کے نام سے ہوئی ہے جس کی عمر 30 سال کے لگ بھگ ہے اور وہ پنجگور کا رہائشی ہے۔ دوسرے حملہ آور کی عمر 35 سال کے لگ بھگ تھی۔
حملے میں جان کی بازی ہارنے والے سیکیورٹی گارڈ کی شناخت 45 سالہ نور محمد کے نام سے ہوئی ہے۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا کہ انہیں سر میں گولی لگی ہے۔
حملے کی اطلاع ملتے ہی قریبی فلنگ اسٹیشن پر تعینات شرافی گوٹھ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جاپانی شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
مارے گئے دہشت گرد کے قبضے سے تین رائفلیں، چھ دستی بم، پٹرول کی بوتلیں، ایک بڑی پانی کی بوتل اور ایک لانچر ملا ہے۔
بم ڈسپوزل سکواڈ نے قبضے کے بعد سب کچھ ناکارہ بنا دیا جس کے بعد انہیں شرافی گوٹھ پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
جاپانی شہریوں کی گاڑی پر خودکش حملے کی خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
پولیس، رینجرز، حساس اداروں کے افسران اور بم ڈسپوزل یونٹ نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر اسے سیل کردیا۔ دونوں زخمیوں کو طبی امداد کے لیے جناح اسپتال پہنچایا گیا۔ پولیس سرجن نے بتایا کہ ان میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
جائے وقوعہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ایسٹ اظفر مہیسر نے کہا کہ حملہ آوروں میں سے ایک نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا دہشت گرد پولیس کی فائرنگ سے مارا گیا۔
“پولیس CPEC [چین پاکستان اقتصادی راہداری] اور دیگر منصوبوں پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کو سیکیورٹی فراہم کرتی ہے اور سیکیورٹی گارڈز نے بھی دہشت گردی کی اس کارروائی میں بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔”
پولیس اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ خودکش حملہ آور پیدل جائے وقوعہ پر پہنچا تھا۔
“ہم اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ خودکش حملہ آور کے ہینڈلر کون تھے اور اسے یہاں کیسے لایا گیا۔”